Monday, March 28, 2005
اب تو عادت سی ہے مجھ کو
نہ جانے کب سے امیدیں کچھ باقی ہیں
مجھے پھر بھی تیری یاد کیوں آتی ہے
نہ جانے کب سے
دور جتنا بھی تم مجھ سے پاس تیرے میں
اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں
زندگی سے کوئی شکوہ بھی نہیں ہے
اب تو زندہ ہوں میں اس نیلے آسماں میں
چاہت ایسی ہے یہ تیری بڑھتی جائے
آہٹ ایسی ہے یہ تیری مجھ کو ستائے
یادیں گہری ہیں اتنی دل ڈوب جائے
اور آنکھوں میں یہ غم نہ بن جائے
اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں
سبھی راتیں ہیں سبھی باتیں ہیں
بھولادو انھیں ---- مٹادو انھیں
مجھے پھر بھی تیری یاد کیوں آتی ہے
نہ جانے کب سے
دور جتنا بھی تم مجھ سے پاس تیرے میں
اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں
زندگی سے کوئی شکوہ بھی نہیں ہے
اب تو زندہ ہوں میں اس نیلے آسماں میں
چاہت ایسی ہے یہ تیری بڑھتی جائے
آہٹ ایسی ہے یہ تیری مجھ کو ستائے
یادیں گہری ہیں اتنی دل ڈوب جائے
اور آنکھوں میں یہ غم نہ بن جائے
اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں
سبھی راتیں ہیں سبھی باتیں ہیں
بھولادو انھیں ---- مٹادو انھیں
Subscribe to Posts [Atom]