Saturday, May 28, 2005

 

عقل داڑ ۔۔۔

کہتے ہیں عقل داڑ اس وقت نکلتی ہے انسان کو جب عقل آتی ہے یا عقل داڑ نکلنے کے بعد عقل آتی ہے۔۔۔۔ پچھلے تین چار دن سے میرے منہ میں درد اور آج تو بہت سوجن ہے لگتا ہے عقل آ کے ہی رہے گی۔ ہا ہا ہا ۔۔۔ کیا اس بے عقل کو عقل آدام سے نہیں آسکتی۔ لگتا ہے کہ عقل آنا ہی نہیں چاہتی سوچتا ہوں اگر عقل کے اتنا درد اٹھا پڑے تو اٹھالیتے ہیں کم از کم عقلمند تو ٹھراونگا ۔ کل بھائی کو بتایا کہ یاد عقل داڑ نکل رہی ہے ادھا منہ سوجا ہوا ہے ۔۔۔۔ میری امید بڑھانے کہ بجائے الٹا مذاق اڑانے لگے۔ مجھے لگتا ہے کہ میری عقل داڑ تیڑھی نکل رہی ہے۔۔۔

Thursday, May 26, 2005

 

حدود کا بل اور پرویز مشرف


Jang News ..... A Case That Involve DNA Test

More on BBC Urdu Site " http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2005/05/050526_mush_dna_support_ra.shtml "

آج سورہ نور کا ترجمہ پڑھا۔۔ سورہ نور میں حدود اور زنا کا مسئلہ کافی تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ اور اس میں سزا کا بھی تعین کیا گیا ہے گواہوں کے بارے میں بھی بتایاگیا ہے۔۔۔ سورہ نور میں بتایا گیا ہے کے اگر کوئی کسی عورت پر زنا کا جھوٹا الزام لگائے اور چار گواہ پیش نہ کرسکے تو وہ کسی گواہی کے کابل نہیں ۔۔۔(تفصیل کے لیے سورہ نور کا ترجمہ پڑھیں)۔
وہ کیس جس کا میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں لکھا تھا۔ اس میں شوہر کے پاس اپنی سچائی کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ تھی۔ جسے عدالت نے زنا کے مقدمے کے لئے ناکافی ڈھرایا تھا۔ سب ہی کو پتا ہے کہ جب ضیا الحق کے دور میں حدود کا بل پاس ہوا تھا تو اس میں سائنسی نقتہ کو نظر انداز کیا گیا ہے اور وہ صرف اسلامی جذبات کا بل ہے جو اسلام کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا ۔ اسلام ایسے کسی جذبات کو نہیں مانتا جو اس کے اسولوں اور عدل کے منافی ہو۔ اس بل کی رو سے زنا سرعام کرنے والے کو سزا ہو سکتی ہے اور یا کسی ایسے کو جس کے پاس جھوٹے گواہ ہوں۔ جنرل پرویز مشرف کا یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمیں ایسے بل اور قانون کو بدلنا ہوگا جو حقائق کے منافی ہو۔ مجرم کو حقائق کی بنیاد پر سزا دینی ہوگی نہ کہ گواہوں کے بنیاد پر ۔ ہمیں جرم اور مجرم کو سامنے لانے کے لیے سائنس کا سہارا لینا ہوگا۔
ایسے جرم اور مجرم لانا حکومت کی ذمہ داری ہے پر ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم حکومت کا اس معاملے میں مدد کریں۔ اور ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کے حکومت عوام سے بنتی ہے نہ کے ذور سے۔۔۔


Wednesday, May 25, 2005

 

کراچی کی اسکائی لائین ۔۔۔۔۔




SkyLine ... Karachi City


بہت دنوں سے کراچی کی یاد آدہی تھی سوچا انٹرنیٹ پر کراچی کی تصویریں ڈھونڈوں ۔۔۔ کئی بہترین تصویریں ملیں جن میں سے میں نے کچھ اپنے بلاگ پر پوسٹ کردیں۔۔۔ کراچی کی یہ اسکا‏ئی لائین کی تصویر کسی ترقی یافتہ شہر کی سی لگتی ہے۔۔ یہ تصویر دیکھ کے اندازہ ہوا کے کراچی کو روشنی کا اور زندہ دلوں کا شہر کیوں کہا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ پاکستان میں زیادہ گھومنے کا موقع ہی نہیں ملا کراچی یا حیدرآباد کے علاوہ کہیں نہیں گیا ۔۔۔ ایک دفعہ لاہور گھومنے گیا تھا ایک مہینے روکنے کا پروگرام تھا پر ایک ہفتے میں ہی بھاگ کر کراچی آگیا۔۔۔۔ لاہور کی بھی اپنی بات ہے اپنا مزا ہے ۔ کراچی جیسے شہر میں رہنے کا یہ فائدہ تو ہوا کہ ٹورنٹو جیسے شہر میں سیٹ ہونے میں دیر نہیں لگی۔


Sunday, May 22, 2005

 

کراچی کی تصویریں ۔۔۔۔


Creekclub ... Karachi
کریک کلب ۔۔۔۔۔ کراچی


Seashore ... Karachi
سی شور ۔۔۔۔ کراچی


FTC Mosque ... Karachi
ایف ٹی سی مسجد ۔۔۔۔ کراچی


National Stadium ... Karachi
نیشنل اسٹیڈیم ۔۔۔۔۔ کراچی


Monument ... Karachi City
مونومینٹ ۔۔۔۔ کراچی



Karachi Port Authority ... Karachi City
کراچی پورٹ اتھارٹی ۔۔۔۔ کراچی


ExpressWay ... Karachi City
ایکسپریس وے ۔۔۔۔۔ کراچی

Saturday, May 21, 2005

 

حدود کے مقدمات اور ڈی این اے ٹیسٹ


A News Image From "The Dail Jung" Dated 21 May 2005 On the "Court Section"

In BBC URDU Section u can read about this story at
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2005/02/050204_dna_case_sen.shtml

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2005/05/050521_dna_lhc.shtml


کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ زہن قبول ہی نہیں کرتا۔۔ اسلام انسان کو جستجو اور کھوج کا سبق دیتا ہے۔ اسالم کے بہت سے اصول اس وقت بنائے گئے جب سائینس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ ایسے ہی "حدود " کا معملہ ہے۔پنجاب ہائی کورٹ میں ایک حدود کا مقدمہ کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ اور اس کی خبریں کافی عرصے سے اخبار کی ذینت بنتی رہی ہے۔اس مقدمہ کی کہانی یہ ہے کہ ایک شخص کافی غرصے سے امریکہ میں نوکری کررہا ہے بیوی پاکستان میں رہتی ہے۔ وہ امریکہ سے پاکستان بھی چکر لگاتا رہا ہے۔ جب اس کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی تو وہ امریکہ میں تھا۔ بیٹی کی ولادت کے بعد جب وہ پاکستان آیا تو اسے شک تھا کہ یہ بیٹی اس کی نہیں ہے اور یہ کہ اس کی بیوی کے تعلقات کسی اور مرد سے ہیں اور یہ بچی اسی تعلقات کی پیداوار ہے۔ شوہر کورٹ گیا حدود کا مقدمہ چلا۔ وہ آدمی چاہتا تھا کہ اس بچی کا اور اس آدمی کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے اور معلوم کیا جائے کہ یہ لڑکی اس کی ہے یا اس آدمی کی۔ اس دوران وکیل نے یہ نکتہ اٹھایا کہ کیا عدالت میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے باپ کا پتہ چلایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ خیر عدالت نے فیصلہ دیا کہ ڈی ایں اے ٹیسٹ کو بطور شہادت پیش کیا جاسکتا ہے ۔۔۔ ڈی این اے ٹیسٹ ہوا اور معلوم ہوگیا کے وہ آدمی حق پر ہے وہ بچی اس کی نہیں بلکہ اس کی بیوی کی اور اس کے عاشق کی ناجائز اولاد ہے ۔۔۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی مقدمہ حدود کا تھا ۔۔ اسی مقدمہ میں یہ نقطہ بھی اٹھایا گیا کیا ڈی این اے ٹیسٹ کو حدود کے مقدمہ میں بطور شہادت پیش کیا جا سکتا ہے یا نہیں ۔۔۔ یہ خبر اسی کے بارے میں ہے ۔

پنجاب ہائی کورٹ نے اس مقدمہ میں اسلامی اسکالر کی بھی خدمات حاصل کیں اور فیصلہ دیا کہ اسلام کا حدود کے شہادتوں کا ایک اپنا ذاتی معیار ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب معلوم ہو گیا کہ وہ بچی اسکی اولاد نہیں ہے بلکہ اسکی بیوی اور اسکے عاشق کی ناجائز اولاد ہے تو پھر حدود کا مقدمہ کیوں نہیں چل سکتا اور کیا ایسے تعلقات جائز ہیں جو ایک بند کمرے میں ہوں جہاں چار آدمی ایسے تعلقات نہ دیکھ سکیں اور یہ کہ کہ ایسے تعلقات اگر چھپ کر ہوں تو کیا جائز ہیں اور یہ کہ ناجائز اولاد کہاں تک اس آدمی کے لیے جائز ہے۔

میں یہ بات یہاں واضع کردوں یہ وہ سوالات ہیں جن کا آپ کوپاکستان میں تو سامنا نہ کرنا پڑے پر وہ مسلمان اور پاکستانی جو پاکستان سے باہر آباد ہیں وہ یقینا ان سوالات کے جوابات کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہے ہوں گے ۔۔۔

اللہ ہم کو نیک اور سیدھے راستے پر قاربند رکھے اور ہمارے ایمان کو اور مضبوط کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین


Wednesday, May 11, 2005

 

ہماری سوچ ۔۔۔۔

جارج کا پاکستان میں جارج نے کراچی کے بارے میں کہا کہ اسے کراچی کی انرجی بہت پسند ہے۔ جارج کی یہ بات وہ لوگ خوب سمجھ گئے ہونگے جو یہاں رہے ہیں۔ تیز اور روشن زندگی کراچی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں پاکستان میں سب سے زیادہ شرع خواندگی ہے خواتین کو جتنی آزادی یہاں ہے شاید ہی پاکستان میں کہیں اور ہوگی۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے پر یہاں سہولتیں وہ نہیں جو بڑے شہروں میں ہوتی ہیں میں بات صرف بنیادی سہولتوں کی کررہا ہوں۔ پاکستان میں میرا کراچی لاہور اور حیدرآباد کے علاوہ کہیں جانا نہیں ہوا لیکن اندازہ ہے کہ اگر بڑے شہروں میں سہولتیں نہیں ہیں تو چھوٹے شہروں کا کیا ہوگا۔ سوچا تھا کہ کراچی کے بارے میں لکھوں گا ۔ ویسے ہمارے یہاں لوگ اپنے شہر کے علاوہ بات ہی نہیں کرتے ۔ انہیں صرف اپنا شہر ہی اچھا چاہیے۔ اسی افراتفری میں کوئی بات بنتی ہی نہیں ہے۔ کراچی والے کہتے ہیں کراچی اچھا لاہور والے کہتے ہیں جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا اور ایسے ہی ملتان ملتان ہے اور پتا نہیں کیا کیا۔ میرا خیال ہے ہم ایسی بات کرجاتے ہیں جس کا کو‏ئی مطلب ہی نہیں ہوتا۔ سوچ ابھی تک وہ ہی انفرادی ہے۔

"ہمارا" اور "میرا" میں بہت فرق ہے " ہمارا" میں بڑی قوت ہے اور دل کو بھی اچھا لگتا ہے ۔ ہمارا کراچی یا ہمارا لاہور ۔۔۔ ہمارا پاکستان ۔۔۔

Tuesday, May 10, 2005

 

ایک نظم

یہ نظم اسماء مرزا نے اپنے بلاگ پر اور میرے پوسٹ کی کمنٹ میں پوسٹ کی تھی نظم بڑی ذبردست ہے اس لیے اسے اپنے بلاگ پر پوسٹ کر رہا ہوں

بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے ہیں
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے ہیں
وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں
تتتلی کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے
پاؤں مار کے خود بارش کے پانی میں
اپنی ناؤ آپ ڈبویا کرتے تھےچھوٹے تھے
تو مکروفریب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑیا پکڑا کرتے تھے
خوشبو کے اڑتے ہی کیوں مرجھایا پھول
کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے
اپنے جل جانے کا بھی احساس نہیں تھا
جلتے ہوۓ شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے
اب تو اک آنسو بھی رسوا کر جاتا ہے
بچپن میں جی بھر کر رویا کرتے تھے

Friday, May 06, 2005

 

باتیں ۔۔۔ واتیں

معصوم بھولا بھالا بے غرض بچپن، سب ہی کا ہوتا ہوگا۔ بچپن بھی عجیب عمر ہے نہ کوئی پریشانی نہ کوئی فکر۔ نہیں فکر تو ہوتی ہے امی پاپا کی، بہن بھائیوں کی اور دوستوں کی اور ان کھلونوں کی جو عزیز ہوں۔ کتنے ہی ایسے میرے بچپن میں موقعے آئے کہ کبھی دوستوں سے میں ناراض کبھی وہ مجھ سے ناراض۔ بچپن ایسی عمر ہے جس میں دل میں کو‏ئی بغص نہیں ہوتا اور اگر دل میں بغص نہیں تو ناراضگی پائیدار نہیں ہوتی۔ ناراضگی پھر دوستی ۔دوستی پھر ناراضگی۔ یہ ہی بچپن ہےاور یہ ہی ایک اساسہ ہے بے غرض کسی بھی چیز سے انجانہ۔ محبت بھرا۔۔۔۔
میرا ایک اسکول کے زمانے کا دوست ہے بچپن میں جب کبھی ہم کرکٹ کھیلتے تو وہ اپنی بیٹنگ لے کر کہتا کہ میں نہیں کھیل رہا اور وہ کبھی مجھے پہلے بیٹنگ نہیں دیتابچپن یا تو سب کا ہی بیوقوف ہوتا ہے یا شاید صرف میرا ہی تھا ہماری لڑائی ہوتی پر اگلی صبح وہ اور میں پھر اسکول ساتھ جاتے نہ میرے دل میں بغص نہ اس کے دل میں بغص۔ لیکن عمر جیسے بڑھتی جائے انسان کی انا بھی بڑھتی رہتی ہے۔ جیسے اگر اس نے مجھے فون نہیں کیا تو میں بھی نہیں کروں گا اگر اس نے یہ کیا تو میں بھی یہ کروں گا ۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔ ہا ہا ہا
انسان تو انسان ہی ہے۔ بچپن سے یاد آیا کہ کچھ ہرکتیں ایسی کرتے تھے کہ اب یاد آتا ہے تو ہنسی آتی ہے۔ جیسے اکثر دوپہر میں جب امی سوجاتی تھیں تو ہم (میں اور میری بہینں) مکھیاں ہاتھ سے مارنے کا مقابلہ کرتے تھے ہاتھ سے کس نے زيادہ مکھیاں ماریں۔۔ ابھی بھی یاد ہے کہ ہاتھ پر مری مکھیوں کے جسم کے ساتھ خون بھرا ہوجاتا تھا ۔۔ یمی ۔۔۔ ہی ہی ہی ایسے ہی کتنی الٹی سیدھی حرکتیں میں کرتا تھا۔ کچھ اچھی حرکتیں بھی کرتے تھے جیسے اگر کو‏ئی چڑیا کمرے میں پنکھے سے ٹکرا کر مر جاتی تھی تو ہم گلی میں اسکی قبر بناتے تھے۔ کتنا عجیب سا لگتا تھا وہ لمحہ دل کتنا افسردہ سا ہوتا تھا۔ اس عمر میں معلوم نہیں تھا کہ موت کیا چیز ہوتی ہے پر پھر بھی دل میں ایک بوجھ سا ہوتا تھا۔۔۔ اگر موت زندگی سے اچھی ہے تو پھر یہ احساس کیوں۔ وہ بھی ایک ایسے وقت جب یہ نہیں معلوم کہ زندگی کیا ہے اور موت کیا ہے ۔۔۔۔

Sunday, May 01, 2005

 

کینیڈا ۔۔۔۔۔۔ میرا ٹورنٹو

کینیڈا ، ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا کے ہر ملک کا آدمی ملے گا۔ کینیڈا اپنے شہریوں کو دوہری شہریت کی اجازت دیتا ہے یہاں کمیونیٹیز کو بلا کی آزادی ہے وہ اپنے مذہبی اور علاقائی تہوار ڈاون ٹاؤن میں شیان شان طریقے سے مناتے ہیں۔
کینیڈا میں ٹورنٹو ایسا شہر ہے جہاں زیادہ تر امیگرینٹس ہیں ہر ملک کا امیگرینٹ آپ کو یہاں ملے گااس شہر میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ہر نئی بات اپنا لیتاہے پر اپنی حیثیت پر آنچ نہیں آنے دیتا۔ کینیڈا میں سب سے زیادہ بجٹ اسی شہر کا ہوتا ہے ٹورنٹو میں شہری ادارے انگلش اور فرینچ (دو قومی زبانیں) کے علاوہ چھ سے زیادہ زبانوں میں اپنی سروسز مہیا کرتے ہیں ہنگامی حالت کا نمبر 911 دنیا کی ہر زبان میں سروس فراہم کرتا ہے یہاں کی ٹرانزٹ سسٹم 1921سے اب تک 25 بیلین لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایاجو دنیا کی آبادی سے چار گنا زیادہ ہے۔ ہیلتھ کوریج فری ہے مطلب فیملی ڈاکٹر کوفیس گورنمنٹ پے کرتی ہے دوائیاں امریکہ کے مقابلے میں کافی سستی ہیں اس کے علاوہ اور بھی کئی ساری چیزیں ہیں جو کینیڈا کو دوسرے ممالک سے امتیاز کرتی ہے
مجھے جو ٹورنٹو میں ایک بات اچھی لگی کے کوئی نیا آدمی اپنے آپ کو تنہا نہیں محسوس نہیں کرے گا کوئی نہ کوئی آپ کی مدد کے لیے ہوگا لوگ بہت فرینڈلی ہیں

This page is powered by Blogger. Isn't yours?

Subscribe to Posts [Atom]