Sunday, April 24, 2005

 

کچرے والا بابا۔۔۔ کہانی میری زبانی

وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا اس کی بیوی بھی اس سے بہت محبت کرتی تھی یہ ہی وجہ تھی کہ جب سے بیماری نے اس کو گھیرا اس کی بیوی نے اس کی بہت تیماداری کی تھی اس بیماری میں اس کی اپنی نوکری چلی گئی اور دھیرے دھیرے گھر کی ساری قیتی چیزیں بک گئیں ایک وقت ایسا آیا کہ اس کی بیوی کو نوکری کرنی پڑی۔ اس کی بیوی اس کو روزآنہ ملنے آتی تھی۔ کبھی کبھی اس کا باس بھی اس کے ساتھ آتا تھا۔ بعص دفعہ تو اس کا باس اس کی بیوی کے اتنا قریب آجاتا تھا کہ اس کا خون خول اٹھتا تھا۔ پر وہ کچھ کہہ یا کر نہیں سکتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی بیوی نے اس کے پاس آنا بند کردیا۔ اسپتال والے بھی اس سے بستر خالی کرنے کا کہہ رہے تھے ۔ آخر کار اس کو اسپتال سے جانا پڑا اگرچہ وہ ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوا تھا۔بلکہ اب تو وہ بہت کمزور ہو گیا تھا۔اسپتال سے باہر نکلا تو ٹھنڈی ہوا کہ جھونکے نے اس کہ بدن کو چوا اس نے اپنے اندر ایک تازگی محسوس کی۔ باہر آکر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں جائے۔ گھر کا راستہ بھول چکا تھا۔کیا کرتا اس نے سڑک کے ایک طرف چلنا شروع کردیا۔ معلوم نہیں کب سے چل رہا تھا۔ بھوک اور پیاس نے اس کو پریشان کرنا شروع کردیا۔ کھانے کی ہلکی سے مہک جو آس پاس سے آرہی تھی اس کی بھوک کو اور تیز کردیتی بھوک کے مارے اس کے پیٹ میں درد شروع ہو چلا تھا۔کمزوری ، بھوک،اور پیاس کے مارے گر کر بہوش ہو گیالوگ اس سے بے نیاز اس کے آس پاس سے گزر رہے تھے۔ جب وہ ہوش میں آیا تو اس وقت تک اندھیرا چھا چکا تھاسڑک سنسان تھی۔ پیاس اور بھوک نے اسے پھر پریشان کرنا شروع کردیا۔اب وہ کـچھ کھانے کی تلاش میں چل رہا تھا۔ چلتے چلتے اسے ایک گلی میں کچھرے کا ڈھیر نظر آیا۔ اب وہ کچھر ے کے ڈھیر میں کچھ کھانے کی چیزیں تلاش کررہا تھا۔ اسے ایک تھیلی میں آم کی گٹھلیاں اور چلکے ملے اور اس نے آم کی گٹھلیوں کو چوسنا شروع کردیا اور جب اس سے فارغ ہوا تو آم کے چھلکے کھا گیا اب اس کو پیاس بھی نہیں تھی اور بھوک بھی کچھرے کے ایک طرف پڑ کے سوگیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو سورج نکل چکا تھا اور کافی لوگوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔ پر کسی نے اس کی موجودگی کو محسوس نہیں کیا۔اب اسے پھر بھوک لگی تو اس نے پھر کچھرے میں جاکر کھانے کے لیے کچھ تلاش کیااسے ایک کاغذ میں آلو کی بھجیاملی اسے کھایا اور جو کھانے کی چیز ملی کھا گیا۔ اب روز کیا اس کا یہ ہی معمول تھا کہ کچھر ے میں اسے کھانے کو مل جاتا اور کچھرے کہ پاس ہی اسے سونے کو بھی۔ شروع شروع میں اسے آوارہ بلیوں اور کتوں سے مزحمت کا سامنا کرنا پڑا پر اس نے سب کو بھگا دیا۔ اب وہ کسی بلی کتے کو کچرے کے قریب نہیں آنے دیتا۔ اب وہ اس جگہ سے مانوس ہو گیا تھا۔ آس پاس کے گھر والے بھی اس سے مانوس ہوگئے تھے۔ کسی نے اسے تنگ نہیں کیا تھا۔ اور وہ اس محلے میں کچرے والے بابا سے مشہور ہوگیا تھا۔ اگرچہ کوئی اس سے بات نہیں کرتا تھا پر لوگ اس کا خیال رکھ رہے تھے اب اس کو کچرے میں تازہ تازہ سالن اور روٹی ملنے لگی تھی اسے اس کچرے کے ڈھیر میں کھانے کی ہرچیز مل جاتی۔ مٹھائی کھانا پھل ہر موسم کی ہر چیز اس کو مل جاتی۔ مہینے میں ایک آدھ بارشہری حکومت کچرے کو ڈھیر کو صاف کردیتی پر پھر آہستہ اہستہ وہ پھربھرنا شروع ہوجاتااسے کچرے کہ اس ڈھیر سے مہنگائی کا بھی پتا چل جاتا جب بھی بازار میں مہنگائی بڑتی تو کچرے میں کھانے کی چیزیں کم ہی ملتی تھیں ۔ وقت ایسے ہی گزر رہا تھا۔اگر کبھی لوگ کچرے والے بابا کو نہیں دیکھتے تو انھیں تجسس ہوتاکہ وہ کہاں گیا اور جب وہ دیکھ لیتے کہ وہ وہاں ہے تو انھیں اطمنان ہوتا۔ دن ہفتوں اور ہفتوں مہینوں میں گزرنے لگےلیکن کبھی کبھی کچھ باتیں معمول سے ہٹ کر بھی ہوتی ہیں ایسی ہی ایک رات کچرے والا بابا سورہا تھا کہ رات کی خاموشی میں اسے کسی بچے کی رونے کی آواز آنے لگی ۔کوئی بچہ بہت زور زور سے رو رہا تھا۔آواز اس کے پاس کہیں سے آرہی تھی۔وہ اٹھا اور بچے کو تلاش کرنے لگا اور یہ کیا ایک انسان کا بچہ جانور کے بچے کی طرح کچرے میں پڑا ہوا تھا۔ ممتا اتنی بے بس اور ظالم بھی ہوسکتی ہے اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔ بچہ بہت پیارا تھا اس نے اسے گود میں لیا تو اسے ایسا لگا جیسے یہ اسکا ہی بچہ ہو۔ بچہ برابر رو رہا تھا۔ وہ اس کو گو د میں لے کر اسے گھوما رہاتھا پر شاید بچے کو بھوک لگی تھی یا وہ اپنی بے بسی کا اعلان کررہا تھا وہ کچرے میں بچے کے لیے کھانے کی کوئی چیز تلاش کر نے لگا اس کے ہاتھ میں آم کی ایک گھٹلی آئی اس نے اس پر سے مٹی صاف کی اور اسے بچے کے منہ میں ڈال دیا بچے کہ منہ میں جب میٹھی میٹھی آم کی گھٹلی گئی تو اس نے اسے چوسنا شروع کیا اور چوستے چوستے سو گیا۔۔۔۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ کچرے والا بابا محلے میں زیرتعمیر گھر میں اینٹیں دھو رہا ہے اور اس کہ پاس ہی ایک بچہ کپڑے میں لپٹادودھ کی بوتل پیئے سو رہا ہے

نوٹ : یہ کہانی میری زبانی ہے جو میں نےبارہ تیرہ سال پہلے جنگ اخبار میں پڑھی تھی میں نے یہ کہانی میں نے اپنی یاداشت کے مطابق لکھی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کہانی اپنی اصلی حالت سے بگڑی ہوئی ہو پر اسکا مرکزی خیال (تھیم) وہ ہی ہے

Wednesday, April 20, 2005

 

کچھرے والا با با ۔۔۔۔۔ ایک کہانی/ افسانہ

یہ کہانی میں نے جنگ اخبار میں پڑھی تھی مصنف کا نام مجھے یاد نہیں ہے پر اس کہانی نے میرے دل میں ایک عجیب سا احساس پیدا کیا تھا۔ اب بھی جب میں اس کہانی کے بارے میں سوچتا ہوں وہ ہی پہلا سا احساس محسوس ہوتا ہے جو اس وقت ہوا تھا اگرچہ یہ پوری کہانی مجھے یاد نہیں پر اس کہانی کا مرکزی خیال (تھیم) جو میرے ذہین میں اس وقت بنا وہ اب بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سے دوستوں نے یہ کہانی پڑھی ہو اور ان کو معلوم ہو کہ یہ کہانی(یا افسانہ) کا مصنف کون ہے تو پلیز مجھے بتا دیں۔ اپنے اگلی پوسٹ میں یہ کہانی اپنی زبانی لکھوں نگا

Sunday, April 17, 2005

 

چاہت یا پاگل پن

مانا بکھرا ہوں میں ابھی میں نے خواب پیروئے تھے
تیری سانسوں میں گم ہوں ابھی ، میری چاہت ادھوری ہے

مشکلیں جب بھی آجائیں گی درد حد سے گزر جائے گا
کو‏ئی غم نہ پھر ہوگا مجھے گر خابوں میں تم آ‏ؤ گے

Wednesday, April 06, 2005

 

کینیڈا اور ہڑتالیں

کینیڈا میں ہر سال کسی نہ کسی کی ہڑتال ہوتی ہے ۔ یہ سیاسی ہڑتالیں نہیں ہوتی ہیں بس ورکرز یونین کی ہڑتال ہوتی ہے۔دوہزار دو میں جب پاپ جان پال نے ٹورنٹو کا دورہ کیا تو سٹی کونسل کے گاربیج پیکرز (ورکرز )نے ہڑتال کردی اور یہ ہڑتال ایک ہفتہ سے زیادہ کی تھی اور سٹی گورنمنٹ اور یونین کے درمیان معاہدہ ہوگیا یہ ہڑتال اپنے پیسے بڑہانے کے لیے کی تھی جس میں وہ کامیاب ہوگئے۔ اس کے اگلے سال سٹیزنشپ اور امیگریشن حکام نے ہڑتال کردی مسئلہ وہی پیسوں کا یہ بھی ہڑتال کافی لمبی رہی اور ان کی بھی حکومت سے ڈیل ہوگئی اس دوران دوسری ہڑتالیں الگ ہیں اس سال ٹورنٹو ٹرانزٹ کنٹرول (ٹی ٹی سی) کے ورکرز یونین نے ہڑتال کرنے کی کال دی ہے ٹی ٹی سی مینیجمینٹ پچھلے دو ہفتے سے یونین کے ساتھ گفتوشنود (نیگوسی ایشن) کر رہے ہیں پر ابھی تک کوئی ڈیل طے نہیں ہو‏ئی ہے یونین نے منیجمینٹ کو جمعہ کی دوپہر تک کی مہلت دی ہے اگر جمعہ تک ڈیل نہیں ہوتی تو پیر کو یونین ہڑتال کرے گی اور اسکا مطلب پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چلے گی اور اگر یہ ہڑتال ہوجاتی ہے تو شہر کے کئی ملین لوگ کام پر اور اسکول نہیں جا سکیں نگے ظاہر ہے اگر ایسا کچھ ہوا تو ذمہ دار ٹی ٹی سی مینیجمینٹ ہوگی ۔۔۔

ہمارے ملک میں ہڑتال کا لفظ سن کر توڑپھوڑ ، جلاؤ گھراؤ لاٹھی چارج جیسے مناظر ذہن میں آتے ہیں جب تک ایک آدھ زندگی ضا‏ئع نہ ہوجائے ہڑتال کامیاب نہیں ہوتی۔ ہمارے یہاں ایسے اشوز پر ہڑتال ہوتی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ اشوز کس زمرے میں آتے ہیں۔ مذہب کے خانے کے لیے ہڑتال ، پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے کے لیے ہڑتال (ابھی ٹورنٹو میں پیٹرول 91.5 سینٹ لیٹر ہے جو عام ریٹ سے دس سے بیس سینٹ زیادہ ہے پر یہاں اس پر کوئی ہڑتال نہیں ہے ) میریتھن ریس میں لڑکیوں کو روکنے کے لیے شور شرابا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم ہمارے لیڈر قوم کو کہاں لے جارہے ہیں اس وقت یہ لوگ شور کیوں نہیں کرتے جب اراکین اسمبلی اور اراکین سینیٹ کی تنخواہیں بڑھتی ہیں جبکہ ملک میں غربت بڑھتی جا رہی ہے ۔ قوم کو ایسے اشوز میں الجھایا جارہا ہے جس کا نہ قوم سے کوئی تعلق ہے نہ ان لیڈروں کا ۔۔۔ جب قوم کا اور اس کے خزانوں کا مالک ہی ڈاکو اور چور ہو تو اس قوم کا کیا حال ہوگا۔

This page is powered by Blogger. Isn't yours?

Subscribe to Posts [Atom]