Friday, May 06, 2005

 

باتیں ۔۔۔ واتیں

معصوم بھولا بھالا بے غرض بچپن، سب ہی کا ہوتا ہوگا۔ بچپن بھی عجیب عمر ہے نہ کوئی پریشانی نہ کوئی فکر۔ نہیں فکر تو ہوتی ہے امی پاپا کی، بہن بھائیوں کی اور دوستوں کی اور ان کھلونوں کی جو عزیز ہوں۔ کتنے ہی ایسے میرے بچپن میں موقعے آئے کہ کبھی دوستوں سے میں ناراض کبھی وہ مجھ سے ناراض۔ بچپن ایسی عمر ہے جس میں دل میں کو‏ئی بغص نہیں ہوتا اور اگر دل میں بغص نہیں تو ناراضگی پائیدار نہیں ہوتی۔ ناراضگی پھر دوستی ۔دوستی پھر ناراضگی۔ یہ ہی بچپن ہےاور یہ ہی ایک اساسہ ہے بے غرض کسی بھی چیز سے انجانہ۔ محبت بھرا۔۔۔۔
میرا ایک اسکول کے زمانے کا دوست ہے بچپن میں جب کبھی ہم کرکٹ کھیلتے تو وہ اپنی بیٹنگ لے کر کہتا کہ میں نہیں کھیل رہا اور وہ کبھی مجھے پہلے بیٹنگ نہیں دیتابچپن یا تو سب کا ہی بیوقوف ہوتا ہے یا شاید صرف میرا ہی تھا ہماری لڑائی ہوتی پر اگلی صبح وہ اور میں پھر اسکول ساتھ جاتے نہ میرے دل میں بغص نہ اس کے دل میں بغص۔ لیکن عمر جیسے بڑھتی جائے انسان کی انا بھی بڑھتی رہتی ہے۔ جیسے اگر اس نے مجھے فون نہیں کیا تو میں بھی نہیں کروں گا اگر اس نے یہ کیا تو میں بھی یہ کروں گا ۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔ ہا ہا ہا
انسان تو انسان ہی ہے۔ بچپن سے یاد آیا کہ کچھ ہرکتیں ایسی کرتے تھے کہ اب یاد آتا ہے تو ہنسی آتی ہے۔ جیسے اکثر دوپہر میں جب امی سوجاتی تھیں تو ہم (میں اور میری بہینں) مکھیاں ہاتھ سے مارنے کا مقابلہ کرتے تھے ہاتھ سے کس نے زيادہ مکھیاں ماریں۔۔ ابھی بھی یاد ہے کہ ہاتھ پر مری مکھیوں کے جسم کے ساتھ خون بھرا ہوجاتا تھا ۔۔ یمی ۔۔۔ ہی ہی ہی ایسے ہی کتنی الٹی سیدھی حرکتیں میں کرتا تھا۔ کچھ اچھی حرکتیں بھی کرتے تھے جیسے اگر کو‏ئی چڑیا کمرے میں پنکھے سے ٹکرا کر مر جاتی تھی تو ہم گلی میں اسکی قبر بناتے تھے۔ کتنا عجیب سا لگتا تھا وہ لمحہ دل کتنا افسردہ سا ہوتا تھا۔ اس عمر میں معلوم نہیں تھا کہ موت کیا چیز ہوتی ہے پر پھر بھی دل میں ایک بوجھ سا ہوتا تھا۔۔۔ اگر موت زندگی سے اچھی ہے تو پھر یہ احساس کیوں۔ وہ بھی ایک ایسے وقت جب یہ نہیں معلوم کہ زندگی کیا ہے اور موت کیا ہے ۔۔۔۔

Comments:
Assalam o alaukum w.w.!

It reminded me of one of my posts

and a very touching nazm


بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے ہیں
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے ہیں
وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں
تتتلی کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے
پاؤں مار کے خود بارش کےے پانی میں
اپنی ناؤ آپ ڈبویا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مکروفریب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑیا پکڑا کرتے تھے
خوشبو کے اڑتے ہی کیوں مرجھایا پھول
کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے
اپنے جل جانے کا بھی احساس نہیں تھا
جلتے ہوۓ شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے
اب تو اک آنسو بھی رسوا کر جاتا ہے
بچپن میں جی بھر کر رویا کرتے تھے !!



wassalam n allahafiz
 
This comment has been removed by a blog administrator.
 
Asma that's a nice poem and i really like it. i think i should post it in my blog... but if u allow me ... lol
 
ہا ہا ہا۔ مکھياں مارنے سے اپنا ايک واقع ياد آيا ہے کہ جب ميں چھوٹا تھا اور گرميوں ميں گھر والے سو جاتے تھے تو ميں اور ميرا بھائی چيونٹے پکڑ کر انکو آپس ميں لڑوايا کرتے تھے ۔ اور اس ميں اتنے ماہر ہو گئے تئر کہ ہو ہی نہيں سکتا تھا کہ جن دو کو ہم لڑوانا چہتے ہوں آپس ميں نہيں لڑيں اللہ معاف کرے بہت سی نادانياں کرتا ہے انسان
 
well sure u can as it's not my zaati malkiat :) i posted it on my blog some weeks back too , copied it from there:)
I think it's by Noshi Gillani!
 
Jahanzaib... Kids have same behaviour any where inthe world ..even my observations with white kids they also as we do in pakistan. play with water and mud and the other stuff u know....
i never try to organize fight for two ants but i tried some thing stupid ..... wht i did i just left a caterpiller and he just cut the ants in two pieces but antz fight back with him and bite him different place and mostly antz won the show..... God Forgive us for such things
 
This post has been removed by the author.
 
Harris! u delete ur feedback before i read it ... lol
 
Harris! u delete ur feedback before i read it ... lol
 
Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]





<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?

Subscribe to Posts [Atom]