Friday, September 08, 2006
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے
صرف اک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا
اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح
سایہ ابر کی مانند گزر جاؤں گا
تیرا پیماں وفا راہ کی دیوار بنا
ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا، مرجاؤں گا
چارہ سازوں سے الگ ہے مرا معیار کہ میں
زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا
اب تو خورشید کو ڈوبے ہوئے صدیاں گزریں
اب اسے ڈھونڈنے میں تا بہ سحر جاؤں گا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
احمد ندیم قاسمی
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے
صرف اک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا
اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح
سایہ ابر کی مانند گزر جاؤں گا
تیرا پیماں وفا راہ کی دیوار بنا
ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا، مرجاؤں گا
چارہ سازوں سے الگ ہے مرا معیار کہ میں
زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا
اب تو خورشید کو ڈوبے ہوئے صدیاں گزریں
اب اسے ڈھونڈنے میں تا بہ سحر جاؤں گا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
احمد ندیم قاسمی
Subscribe to Posts [Atom]