Tuesday, May 10, 2005
ایک نظم
یہ نظم اسماء مرزا نے اپنے بلاگ پر اور میرے پوسٹ کی کمنٹ میں پوسٹ کی تھی نظم بڑی ذبردست ہے اس لیے اسے اپنے بلاگ پر پوسٹ کر رہا ہوں
بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے ہیں
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے ہیں
وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں
تتتلی کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے
پاؤں مار کے خود بارش کے پانی میں
اپنی ناؤ آپ ڈبویا کرتے تھےچھوٹے تھے
تو مکروفریب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑیا پکڑا کرتے تھے
خوشبو کے اڑتے ہی کیوں مرجھایا پھول
کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے
اپنے جل جانے کا بھی احساس نہیں تھا
جلتے ہوۓ شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے
اب تو اک آنسو بھی رسوا کر جاتا ہے
بچپن میں جی بھر کر رویا کرتے تھے
بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے ہیں
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے ہیں
وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں
تتتلی کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے
پاؤں مار کے خود بارش کے پانی میں
اپنی ناؤ آپ ڈبویا کرتے تھےچھوٹے تھے
تو مکروفریب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑیا پکڑا کرتے تھے
خوشبو کے اڑتے ہی کیوں مرجھایا پھول
کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے
اپنے جل جانے کا بھی احساس نہیں تھا
جلتے ہوۓ شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے
اب تو اک آنسو بھی رسوا کر جاتا ہے
بچپن میں جی بھر کر رویا کرتے تھے
Subscribe to Posts [Atom]