Saturday, May 21, 2005

 

حدود کے مقدمات اور ڈی این اے ٹیسٹ


A News Image From "The Dail Jung" Dated 21 May 2005 On the "Court Section"

In BBC URDU Section u can read about this story at
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2005/02/050204_dna_case_sen.shtml

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2005/05/050521_dna_lhc.shtml


کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ زہن قبول ہی نہیں کرتا۔۔ اسلام انسان کو جستجو اور کھوج کا سبق دیتا ہے۔ اسالم کے بہت سے اصول اس وقت بنائے گئے جب سائینس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ ایسے ہی "حدود " کا معملہ ہے۔پنجاب ہائی کورٹ میں ایک حدود کا مقدمہ کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ اور اس کی خبریں کافی عرصے سے اخبار کی ذینت بنتی رہی ہے۔اس مقدمہ کی کہانی یہ ہے کہ ایک شخص کافی غرصے سے امریکہ میں نوکری کررہا ہے بیوی پاکستان میں رہتی ہے۔ وہ امریکہ سے پاکستان بھی چکر لگاتا رہا ہے۔ جب اس کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی تو وہ امریکہ میں تھا۔ بیٹی کی ولادت کے بعد جب وہ پاکستان آیا تو اسے شک تھا کہ یہ بیٹی اس کی نہیں ہے اور یہ کہ اس کی بیوی کے تعلقات کسی اور مرد سے ہیں اور یہ بچی اسی تعلقات کی پیداوار ہے۔ شوہر کورٹ گیا حدود کا مقدمہ چلا۔ وہ آدمی چاہتا تھا کہ اس بچی کا اور اس آدمی کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے اور معلوم کیا جائے کہ یہ لڑکی اس کی ہے یا اس آدمی کی۔ اس دوران وکیل نے یہ نکتہ اٹھایا کہ کیا عدالت میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے باپ کا پتہ چلایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ خیر عدالت نے فیصلہ دیا کہ ڈی ایں اے ٹیسٹ کو بطور شہادت پیش کیا جاسکتا ہے ۔۔۔ ڈی این اے ٹیسٹ ہوا اور معلوم ہوگیا کے وہ آدمی حق پر ہے وہ بچی اس کی نہیں بلکہ اس کی بیوی کی اور اس کے عاشق کی ناجائز اولاد ہے ۔۔۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی مقدمہ حدود کا تھا ۔۔ اسی مقدمہ میں یہ نقطہ بھی اٹھایا گیا کیا ڈی این اے ٹیسٹ کو حدود کے مقدمہ میں بطور شہادت پیش کیا جا سکتا ہے یا نہیں ۔۔۔ یہ خبر اسی کے بارے میں ہے ۔

پنجاب ہائی کورٹ نے اس مقدمہ میں اسلامی اسکالر کی بھی خدمات حاصل کیں اور فیصلہ دیا کہ اسلام کا حدود کے شہادتوں کا ایک اپنا ذاتی معیار ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب معلوم ہو گیا کہ وہ بچی اسکی اولاد نہیں ہے بلکہ اسکی بیوی اور اسکے عاشق کی ناجائز اولاد ہے تو پھر حدود کا مقدمہ کیوں نہیں چل سکتا اور کیا ایسے تعلقات جائز ہیں جو ایک بند کمرے میں ہوں جہاں چار آدمی ایسے تعلقات نہ دیکھ سکیں اور یہ کہ کہ ایسے تعلقات اگر چھپ کر ہوں تو کیا جائز ہیں اور یہ کہ ناجائز اولاد کہاں تک اس آدمی کے لیے جائز ہے۔

میں یہ بات یہاں واضع کردوں یہ وہ سوالات ہیں جن کا آپ کوپاکستان میں تو سامنا نہ کرنا پڑے پر وہ مسلمان اور پاکستانی جو پاکستان سے باہر آباد ہیں وہ یقینا ان سوالات کے جوابات کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہے ہوں گے ۔۔۔

اللہ ہم کو نیک اور سیدھے راستے پر قاربند رکھے اور ہمارے ایمان کو اور مضبوط کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین


Comments:
آپ نے بہت مناسب اور با موقع موضوع چھیڑا ہے۔ میں اس پر انشااللہ جلد لکھوں گا۔
 
Please see my post of May 23, 2005 on this topic.

Also, please, see reply to you comment under my post of May 22, 2005.
 
Tsk! Tsk! Phir kehtay hein Muslman taraqee nehien qurtay. Jo High Court Mukhtaran kay mujrim azad kar saktee hai uss say yehee umeed ho suktee hai
 
Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]





<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?

Subscribe to Posts [Atom]